وہاں تو روز ستارا نیا چمکتا ہے
یہاں بس ایک ہی جگنو ہے جو سسکتا ہے
اسے تو وقت نے خاموشیاں ہی بخشی ہیں
جو اپنی راہ بدلتا ہے اور بھٹکتا ہے
وہ ایک جھوٹ تھا جو روشنی میں آ پہنچا
یہ ایک سچ ہے اندھیروں میں جو بھٹکتا ہے
تو کس خیال میں کس سوچ میں ہے فکر نہ کر
کہ میرا زخم ترا ظلم چھپ تو سکتا ہے
لگا لیے ہیں جو میں نے بھی موسمی چہرے
تو میرے گھر میں بھی سورج سا اک چمکتا ہے
نیازیؔ آج اس آتش بدن کی یاد آئی
کہ جس کے نام سے شعلہ سا اک لپکتا ہے

غزل
وہاں تو روز ستارا نیا چمکتا ہے
قاسم نیازی