وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے
ابھی کھڑکی میں اک جلتا دیا ہے
مرا دل بھی عجب خالی ویا ہے
کسی کی یاد نے جس کو بھرا ہے
پرندے شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں
یہ کیسا خوف خیمہ زن ہوا ہے
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر
کسی آواز کا پتھر گرا ہے
محبت کا مقدر دیکھتے ہو
ہوا نے کچھ تو پانی پر لکھا ہے
اسی پر کھل رہے ہیں سارے موسم
جو اپنے گھر سے باہر آ گیا ہے
چراغو اب ذرا اپنی سناؤ
ہوا کا کام پورا ہو چکا ہے
محبت پھر وہیں لے آئی عادلؔ
یہ جنگل بارہا دیکھا ہوا ہے
غزل
وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے
عادل رضا منصوری