EN हिंदी
وہاں ساحلوں پہ بشارتوں کا چراغ بھی ہے جلا ہوا | شیح شیری
wahan sahilon pe bashaaraton ka charagh bhi hai jala hua

غزل

وہاں ساحلوں پہ بشارتوں کا چراغ بھی ہے جلا ہوا

قیوم طاہر

;

وہاں ساحلوں پہ بشارتوں کا چراغ بھی ہے جلا ہوا
یہاں ہاتھ میرے بندھے ہوئے مرا بادبان چھدا ہوا

گئی ساعتوں کی تلاش میں مرا حرف حرف بکھر گیا
کہیں تیرے نام کا شعر بھی تھا بیاض جاں پہ لکھا ہوا

مری پور پور پہ تتلیاں کئی رنگ چھوڑ کے جا چکیں
ترے ذکر کا کوئی پھول تھا مرے رت جگوں میں کھلا ہوا

اسے ریت ریت میں کھوجنا اسے لہر لہر میں ڈھونڈھنا
کوئی شہد سا ترا عہد تھا انہی ساحلوں پہ لکھا ہوا

نئے موسموں کے خرام بھی نئے لمس راس نہ آ سکے
میں یہ اعتراف کہاں کروں ترا معتبر تھا کہا ہوا

کسی مور ناچ کا رنگ بھی تری آنکھ کو نہ لبھا سکا
کوئی زرد زرد سا خواب تھا تری پتلیوں میں کھدا ہوا

کسی اور افق کی صداؤں پر وہ اداس گونج چلی گئی
مری جھیل آنکھ نہ سوچنا کبھی آ سکا ہے گیا ہوا

کسی ہجر شال کی دھجیاں مجھے سونپ کر وہ کہاں گیا
وہ دھنک دھنک سے کتا ہوا وہ کرن کرن سے بنا ہوا