وہاں میں جاؤں مگر کچھ مرا بھلا بھی تو ہو
وہ پھول باغ بدن میں کھلا ہوا بھی تو ہو
خدا کو پوجنے لگ جاؤں چھوڑ کر بت کو
بتوں کے جیسے بدن والا وہ خدا بھی تو ہو
میں مسجدوں کے کنارے سے لوٹ آتا ہوں
کہیں ثواب کا دریا بہا ہوا بھی تو ہو
بہت مٹھاس بھی بے ذائقہ سی ہونے لگی
وہ خوش مزاج کسی بات پر خفا بھی تو ہو
اسے مجھے ہی اٹھا کر گلے لگانا تھا
کہ اس کے پاؤں کوئی اور یوں پڑا بھی تو ہو
غزل
وہاں میں جاؤں مگر کچھ مرا بھلا بھی تو ہو
فرحت احساس