EN हिंदी
وہاں کیسے کوئی دیا جلے جہاں دور تک یہ ہوا نہ ہو | شیح شیری
wahan kaise koi diya jale jahan dur tak ye hawa na ho

غزل

وہاں کیسے کوئی دیا جلے جہاں دور تک یہ ہوا نہ ہو

نواز دیوبندی

;

وہاں کیسے کوئی دیا جلے جہاں دور تک یہ ہوا نہ ہو
انہیں حال دل نہ سنائیے جنہیں درد دل کا پتہ نہ ہو

ہوں عجب طرح کی شکایتیں ہوں عجب طرح کی عنایتیں
تجھے مجھ سے شکوہ ہزار ہوں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہ ہو

کوئی ایسا شعر بھی دے خدا جو تری عطا ہو تری عطا
کبھی جیسا میں نے کہا نہ ہو کبھی جیسا میں نے سنا نہ ہو

نہ دیے کا ہے نہ ہوا کا ہے یہاں جو بھی کچھ ہے خدا کا ہے
یہاں ایسا کوئی دیا نہیں جو جلا ہو اور وہ بجھا نہ ہو

میں مریض عشق ہوں چارہ گر تو ہے درد عشق سے بے خبر
یہ تڑپ ہی اس کا علاج ہے یہ تڑپ نہ ہو تو شفا نہ ہو