وفاداری پہ دے دی جان غداری نہیں آئی
ہمارے خون میں اب تک یہ بیماری نہیں آئی
خدا کا شکر صحبت کا اثر ہوتا نہیں ہم پر
اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی
امیر شہر ہو کر بھی نہیں کوئی تری عزت
ترے حصے میں غیرت اور خودداری نہیں آئی
ہماری درس گاہوں کی نظامت ایسی بگڑی ہے
کتابیں پڑھ کے بھی بچوں میں ہشیاری نہیں آئی
لگائی آگ اس نے شہر میں اتنی صفائی سے
کہ اس کے گھر پہ اڑ کے اک بھی چنگاری نہیں آئی
ابھی سے کس لئے بیٹے کو بھیجیں نوکری کرنے
ہمارے دست و پا میں اتنی لاچاری نہیں آئی
میں نادانی پہ اپنی آج تک حیران ہوں داناؔ
کہ دنیا کو سمجھنے کی سمجھ داری نہیں آئی
غزل
وفاداری پہ دے دی جان غداری نہیں آئی
عباس دانا