وفا نے جھوم کے جب تیرے گیت گائے ہیں
قدم افق پہ اندھیروں کے لڑکھڑائے ہیں
ترے قریب پہنچ کر بھی کم نہیں ہوتے
غم حیات نے جو فاصلے بڑھائے ہیں
بہت طویل سہی راہ جستجو لیکن
بہت حسین ترے گیسوؤں کے سائے ہیں
تری نگاہ مداوا نہ بن سکی جن کا
تری تلاش میں ایسے بھی زخم کھائے ہیں
پڑا ہے عکس جو رخسار شعلۂ مے کا
تو آئینے تری یادوں کے جگمگائے ہیں
مسافران شب غم کی راہ میں جامیؔ
نئے چراغ مری فکر نے جلائے ہیں
غزل
وفا نے جھوم کے جب تیرے گیت گائے ہیں
خورشید احمد جامی