وفا کم ہے نظر آتی بہت ہے
بڑے شہروں میں دانائی بہت ہے
ہمارے پاؤں میں پتھر بندھے ہیں
تری آنکھوں میں گہرائی بہت ہے
بنانے کو ہمالہ نفرتوں کے
غلط فہمی کی اک رائی بہت ہے
نظر میں کس کی ہے پاکیزگی اب
کہ اس تالاب میں کائی بہت ہے
ہمارا ساتھ رہنا بھی ہے مشکل
بچھڑنے میں بھی رسوائی بہت ہے
سبھی کی زندگی ہے اپنی اپنی
بھرے گھر میں بھی تنہائی بہت ہے
ادب میں زندگی پانے کو علویؔ
فقط لہجے میں سچائی بہت ہے
غزل
وفا کم ہے نظر آتی بہت ہے
احمد علوی