وفا انجام ہوتی جا رہی ہے
محبت خام ہوتی جا رہی ہے
ذرا چہرے سے زلفوں کو ہٹا لو
یہ کیسی شام ہوتی جا رہی ہے
قیامت ہے محبت رفتہ رفتہ
غم ایام ہوتی جا رہی ہے
سنا ہے اب ترے لطف و کرم کی
حکایت عام ہوتی جا رہی ہے
دکھانے کو ذرا آنکھیں بدل لو
وفا الزام ہوتی جا رہی ہے
مرے جذب وفا سے خامشی بھی
ترا پیغام ہوتی جا رہی ہے
کوئی کروٹ بدل اے درد ہستی
تمنا دام ہوتی جا رہی ہے
محبت سیفؔ اک لطف نہاں تھی
مگر بدنام ہوتی جا رہی ہے
غزل
وفا انجام ہوتی جا رہی ہے
سیف الدین سیف