EN हिंदी
واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم | شیح شیری
wasta koi na rakh kar bhi sitam Dhate ho tum

غزل

واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم

رضا لکھنوی

;

واسطہ کوئی نہ رکھ کر بھی ستم ڈھاتے ہو تم
دل تڑپ اٹھتا ہے اب کاہے کو یاد آتے ہو تم

میری سب آزادیاں بندہ نوازی پر نثار
اے خوشا قید وفا زنجیر پہناتے ہو تم

لاتے ہو کیف طرب دیتے ہو پیغام حیات
کیا بتاؤں ساتھ کیا لے کر چلے جاتے ہو تم

اس طرح چھپتے ہو جلووں کی فراوانی کے ساتھ
میں سمجھتا ہوں کہ جیسے سامنے آتے ہو تم

سن کے میرا حال ہیں آنکھیں نہ ملنے کے وجوہ
یہ بھی ہو سکتا ہے شاید اشک بھر لاتے ہو تم

بھیج کر خوش بو ہواؤں میں بانداز پیام
کیا یہ سچ ہے آج یوں میری طرف آتے ہو تم

دل گزاری بھی لیے ہے امتیاز حسن و عشق
خون رو دیتا ہوں میں اور اشک پی جاتے ہو تم

چاند میں رنگت تمہاری پھول بھی تم سے بسے
کھینچتی ہیں دل فضائیں یاد آ جاتے ہو تم

تم سے ہے آراستہ جذبات کا تازہ چمن
جیسی رت ہوتی ہے ویسا پھول بن جاتے ہو تم

ذکر اس کا ہے رضاؔ نے کیں وفائیں یا نہیں
تم نے آخر کیا کیا کاہے کو شرماتے ہو تم