EN हिंदी
وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں | شیح شیری
waraftagi-e-ishq na jae to kya karen

غزل

وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں

باسط بھوپالی

;

وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں
تیرا بھی اب خیال نہ آئے تو کیا کریں

خود شرم عشق دل کو مٹائے تو کیا کریں
ان تک نگاہ شوق نہ جائے تو کیا کریں

مے خواریاں گناہ سہی ساقیٔ ازل
جب ابر جھوم جھوم کے آئے تو کیا کریں

یہ دیر وہ حرم یہ کلیسا وہ مے کدہ
اپنی طرف ہر ایک بلائے تو کیا کریں

ممکن ہے ہر خیال کا دل سے نکالنا
تیرا خیال آ کے نہ جائے تو کیا کریں

مانا نگاہ شوق رہے احتیاط سے
ہر جلوہ خود نظر میں سمائے تو کیا کریں

باسطؔ ستم پہ شکر ستم چاہئے مگر
کوئی کرم سے ہم کو مٹائے تو کیا کریں