واقف تھے کہاں ہم دل نا چار سے پہلے
کم بخت محبت کے اس آزار سے پہلے
نظریں تو اٹھاتے ذرا دیوار سے پہلے
اک آن تو مل بیٹھتے تکرار سے پہلے
دیوانہ کوئی لائیں گے مجھ جیسا کہاں سے
سوچا نہیں یہ آپ نے انکار سے پہلے
پابستہ جگر سوختہ دلگیر زباں بند
سو ظلم سہے دیدۂ خوں بار سے پہلے
یہ کوئی نیا طرز تغافل تو نہیں ہے
ایسی تو نہ تھی دوستی اغیار سے پہلے
آسودۂ غم ہائے خزاں ہو گئے آخر
پھولوں نے کہاں پوچھا ہمیں خار سے پہلے
دل سوزی و آشفتہ سری تہمت و دشنام
کیا کیا نہیں دیکھا رسن و دار سے پہلے
سرورؔ نے سنائی ہی نہیں اہل خرد کو
اپنی یہ غزل جرأت اظہار سے پہلے
غزل
واقف تھے کہاں ہم دل نا چار سے پہلے
سرور عالم راز