واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روئے خنداں چشم پر آب نکلا
پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تئیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا
روئے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا
مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا
شان تغافل اپنے نو خط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منہ سے جواب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میرؔ رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
غزل
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
میر تقی میر