EN हिंदी
واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا | شیح شیری
wan agar jaen to le kar jaen kya

غزل

واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا

الطاف حسین حالی

;

واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا
منہ اسے ہم جا کے یہ دکھلائیں کیا

دل میں ہے باقی وہی حرص گناہ
پھر کیے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا

آؤ لیں اس کو ہمیں جا کر منا
اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا

دل کو مسجد سے نہ مندر سے ہے انس
ایسے وحشی کو کہیں بہلائیں کیا

جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا

عمر کی منزل تو جوں توں کٹ گئی
مرحلے اب دیکھیے پیش آئیں کیا

دل کو سب باتوں کی ہے ناصح خبر
سمجھے سمجھائے کو بس سمجھائیں کیا

مان لیجے شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا

ہو چکے حالیؔ غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا