واجبی بات کہیں ذرا کہئے
بری لگتی ہے سب کو کیا کہئے
مجھ کو اک یہ بڑی سی حیرت ہے
برے کو کس طرح بھلا کہئے
نیکی کا پھل بدی لگا ہونے
اس زمانے کا کیا گلہ کہئے
چرخ ظالم نے سب کو ڈالا پیس
اس کو تحقیق آسیا کہئے
اور ہی احوال دیکھتا ہوں میں
کس کے آگے یہ ماجرا کہئے
جا بہ جا چھوٹیں جھوٹ کے شیشے
یہ بھی یاروں کا اشقلا کہئے
امی کہتے ہیں ہم تو ہیں فاضل
بے وقوفوں کا در کھلا کہئے
اپنی کرتے ہیں آپ ہی تعریف
ان کے تئیں کو تو چوتیا کہئے
بے شعوری پہ بسکہ ہیں نازاں
کیوں نہ اب ان کو نا سزا کہئے
شیخ جی نے کیا ہے آج خضاب
اس کو بوڑھے کا چوچلا کہئے
لوگوں کے پھوڑتا پھرے شیشے
محتسب کو تو مسخرا کہئے
پوچ پادر ہوا بکے ہے سخن
ناصح کو خواہ مخواہ سڑا کہئے
اپنا سر پھوڑتا ہے آپ رقیب
شوق سے اس کو مد جھڑا کہئے
مارے خندوں کے مرد آدم کو
کوئی پوچھے نہیں ہے کیا کہئے
ڈاڑھی ملا کی گو کہ ہے خوگیر
پر مہادیو کی جٹا کہئے
جن کی حرمت پہ کچھ نہیں ہے نگاہ
ان کو پاپوش کا تلا کہئے
چھپتے پھرتے ہیں وقت جنگ و جدل
بزدلا ان کو برملا کہئے
خود پسندی میں غرق ہے عالم
نینؔ کو کس کو اب برا کہئے
غزل
واجبی بات کہیں ذرا کہئے
نین سکھ