واعظ کی ضد سے رندوں نے رسم جدید کی
یعنی مہ صیام کی پہلی کو عید کی
مرنے کے بعد بھی یہ تمنا تھی دید کی
آنکھیں ہوئیں نہ بند تمہارے شہید کی
پھر جنس دل نہ اپنی کسی نے خرید کی
سچ ہے کہ قدر کچھ نہیں مال مزید کی
یہ وقت چشم پوشیٔ اہل وفا نہیں
جان آنکھوں میں ہے یار ترے محو دید کی
مسی دہان تنگ کی دیکھی تو شک ہوا
انگشتری ہے کوئی نگین حدید کی
وہ شوخ جنگجو جو ہمارے گلے ملا
ماتم مخالفوں نے محبوں نے عید کی
عالم ہے چشم شوق کا ہر ایک ذرے میں
برباد خاک ہے یہ کسی محو دید کی
کیا بے نقط سنائی ہیں اس طفل شوق نے
قاصد نے نامہ دے کے طلب جب رسید کی
کیوں وہ سوال وصل کا دیتے نہیں جواب
حاجت ہے ان کے قفل دہن کو کلید کی
غصے سے آگ ہو کے ہوئے تر پسینے میں
عطر بہار حسن کی اپنے کشید کی
کس روز میں نے مصحف رخسار مس کیا
جھوٹی نہ قسمیں کھاؤ کلام مجید کی
دیکھے نہ پیر زال جہاں کو اٹھا کے آنکھ
مردوں میں آبرو نہیں کچھ زن مرید کی
بے شبہ اے قلقؔ سگ دنیا ہے وہ بشر
جس نے بہ دل اطاعت نفس پلید کی
غزل
واعظ کی ضد سے رندوں نے رسم جدید کی
ارشد علی خان قلق