واہ کیا دور ہے کیا لوگ ہیں کیا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہئے تو گلا ہوتا ہے
کیا بتائیں تمہیں اب کیا نہیں ہوتا ہے یہاں
بس یہ جانو کہ جو ہوتا ہے برا ہوتا ہے
دے کے دکھ اوروں کو وہ کون سا سکھ پائے گا
ایسی باتوں سے بھلا کس کا بھلا ہوتا ہے
اب وہ دن دور نہیں دیکھنا تم بھی یارو
امن کے نام پہ کیا فتنہ بپا ہوتا ہے
پھر صف آرا ہوئیں فوجیں لب دریائے فرات
ہم کو معلوم ہے اس جنگ میں کیا ہوتا ہے
آج پھر دل میں اٹھا ہے وہی دیرینہ سوال
ایسے مظلوموں کا کیا کوئی خدا ہوتا ہے
اک ذرا حال تو دیکھو مرا اے دوست مرے
تم ہی سوچو کوئی ایسے میں خفا ہوتا ہے
یوں تو ہر رات ہی رہتی ہے عجب بے چینی
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
غزل
واہ کیا دور ہے کیا لوگ ہیں کیا ہوتا ہے
جعفر عباس