واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
نام ہے دیدار حسرت حسرت دیدار کا
سیر ہے جنت کی سیروں سے ترے عاشق کا دل
لے کے جنت کیا کرے بھوکا ترے دیدار کا
ذرۂ دل میں اتر آئے ہزاروں آفتاب
کیا کرشمہ ہے خیال جلوہ گاہ یار کا
بڑھ چلا تھا تیری غفلت سے بھی بار بیکسی
موت نے پوچھا مزاج آ کر ترے بیمار کا
جانتے ہیں اک جھلک میں جان و دل مٹ جائیں گے
لوگ منہ تکتے ہیں تیرے طالب دیدار کا
دھیان میں اس کے دو عالم سے کھنچا بیٹھا ہوں میں
یعنی اک نقشہ کھنچا ہے جذب حسن یار کا
جس کو کہتے ہیں مقدر عاشقان بد نصیب
ہے وہ اک بگڑا ہوا خاکہ مزاج یار کا
غزل
واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
راغب بدایونی