EN हिंदी
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو | شیح شیری
wadon hi pe har roz meri jaan na Talo

غزل

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

مصحفی غلام ہمدانی

;

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو

ہر وقت میاں خوب نہیں گالیاں دینی
کیا بکتے ہو تم یاوہ زباں اپنی سنبھالو

پہنچے کو چھڑاؤ گے بڑے مرد ہو ایسے
تم پہلے مرے ہاتھ سے دامن تو چھڑا لو

دیوانے کا ہے تیرے یہ عالم کہ پری بھی
دیکھ اس کو یہ کہتی ہے کوئی اس کو بلا لو

اس شوخ کی آنکھوں کے جو جاتا ہوں مقابل
کہتی ہیں نگاہیں کہ اسے مار ہی ڈالو

یوں پھرتے ہو مقتل پہ شہیدان وفا کے
دامن تو ذرا ہاتھ میں تم اپنے اٹھا لو

جاں ڈالتا ہے مصحفیؔ قالب میں سخن کے
مشکل ہے کہ تم اس کی طرح شعر تو ڈھالو

گو زمزمۂ دہلی و کو لہجۂ پورب
کیوں اس کی طرف ہوتے ہو ناحق کو رزالو