وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو
ہر وقت میاں خوب نہیں گالیاں دینی
کیا بکتے ہو تم یاوہ زباں اپنی سنبھالو
پہنچے کو چھڑاؤ گے بڑے مرد ہو ایسے
تم پہلے مرے ہاتھ سے دامن تو چھڑا لو
دیوانے کا ہے تیرے یہ عالم کہ پری بھی
دیکھ اس کو یہ کہتی ہے کوئی اس کو بلا لو
اس شوخ کی آنکھوں کے جو جاتا ہوں مقابل
کہتی ہیں نگاہیں کہ اسے مار ہی ڈالو
یوں پھرتے ہو مقتل پہ شہیدان وفا کے
دامن تو ذرا ہاتھ میں تم اپنے اٹھا لو
جاں ڈالتا ہے مصحفیؔ قالب میں سخن کے
مشکل ہے کہ تم اس کی طرح شعر تو ڈھالو
گو زمزمۂ دہلی و کو لہجۂ پورب
کیوں اس کی طرف ہوتے ہو ناحق کو رزالو
غزل
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
مصحفی غلام ہمدانی