وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا
میری کشتی کو لیے وقت کا دریا نکلا
پائے ادراک میں چبھتا ہوا کانٹا نکلا
عشق کے دام میں خود اپنا سراپا نکلا
محنت اہل وفا آ ہی گئی کام آخر
ہر شگاف غم ہستی سے سویرا نکلا
عقل کو ناز تھا حد بندیٔ خیر و شر پر
دل نے جانچا تو ہر اک کام ادھورا نکلا
اس سے ملنے کی فضا صاف نہیں تھی کوئی
ہر گزر گاہ پہ احساس کا پہرا نکلا
تشنگی میں نے بجھا لی یہ ہنر تھا ورنہ
خضر کا دل بھی رہ عمر میں پیاسا نکلا
خواب دیکھا تھا کہاں چمکی ہے تعبیر کہاں
حشر کا دن مری فطرت کا اجالا نکلا
موت کی حد میں بھی مجھ کو نہ دیا اذن قیام
سخت مشکل تری نظروں کا تقاضا نکلا
موجۂ نکہت گیسو جسے سمجھا میں نے
وہ بھی میرے نفس سرد کا جھونکا نکلا
میں تہی دست ہوں بازار وفا میں کوثرؔ
سکہ سکہ زر امید کا کھوٹا نکلا
غزل
وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا
کوثر جائسی