وادئ شوق میں وارفتۂ رفتار ہیں ہم
بے خودی کچھ تو بتا کس کے طلب گار ہیں ہم
ہاں ابھی بے خبر لذت آزار ہیں ہم
مژدہ اے مشق ستم تازہ گرفتار ہیں ہم
ہو غم ہستی جاوید گوارا کیونکر
جان کیا دیں کہ بہت جان سے بے زار ہیں ہم
میں نے گویا صلۂ مہر و وفا بھر پایا
کاش اتنا ہی وہ کہہ دیں کہ جفاکار ہیں ہم
یوں تو کچھ غم سے سروکار نہ راحت کی تلاش
غم کوئی دل کے عوض دے تو خریدار ہیں ہم
وہ ہے مختار سزا دے کہ جزا دے فانیؔ
دو گھڑی ہوش میں آنے کے گنہ گار ہیں ہم
غزل
وادئ شوق میں وارفتۂ رفتار ہیں ہم
فانی بدایونی