وادئ غم میں تیرے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں
تجھ کو مری تلاش ہے اور تجھے ڈھونڈتا ہوں میں
ہنستا ہوں بولتا بھی ہوں روتا ہوں سوچتا بھی ہوں
پورا مزاج آدمی سب کو دکھا رہا ہوں میں
اتنا ہجوم آدمی ہے کہ حساب میں نہیں
پھر بھی گلہ ہے آنکھ سے کچھ نہیں دیکھتا ہوں میں
دیکھتا ہوں میں واقعات سلسلۂ تغیرات
صدیوں سے وسط میں بنا شہر کا راستہ ہوں میں
موجۂ گرد رہ اٹھا حاصل زندگی لگا
قافلۂ حیات کی سعی سے آشنا ہوں میں
غزل
وادئ غم میں تیرے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں
قاسم یعقوب