وعدے کا اعتبار تو ہے واقعی مجھے
یہ اور بات ہے کہ ہنسی آ گئی مجھے
لائی ہے کس مقام پہ وارفتگی مجھے
محسوس ہو رہی ہے اب اپنی کمی مجھے
سمجھے ہیں وہ جنوں تو جنوں ہی سہی مجھے
دانستہ اب بدلنی پڑی زندگی مجھے
جلووں کی روشنی میں جو کھویا تھا پا گیا
تم سے نظر ملی تو محبت ملی مجھے
ماحول سازگار مزاج وفا نہ تھا
دنیا سے بچ کے ان کی نظر دیکھتی مجھے
یوں ربط و ضبط شوق بڑھایا بہ طرز نو
جیسے کہ پہلے ان سے محبت نہ تھی مجھے
نخشبؔ مٹایا جس نے وفاؤں کی آڑ میں
اس بے وفا سے پھر بھی محبت رہی مجھے
غزل
وعدے کا اعتبار تو ہے واقعی مجھے
نخشب جارچوی