وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے
معقول کوئی عذر نیا سوچنے تو دے
پرچی وہ جس پہ لکھا ہوا ہے پتہ ترا
رکھ کر کہاں میں بھول گیا سوچنے تو دے
وہ ہجر بھی تو گونگی پہیلی سے کم نہ تھا
اب وصل آ پڑا ہے ذرا سوچنے تو دے
اے چال باز ایسے نہ اترا کے مسکرا
چلنے دے چال مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
ہوں اختیار سے بھی پرے کچھ تصرفات
اندیشۂ حساب ہٹا سوچنے تو دے
جو ہو گیا میں اس پہ ہوں راضی خدا قسم
یہ کیوں ہوا یہ کیسے ہوا سوچنے تو دے

غزل
وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے
صابر