EN हिंदी
وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے | شیح شیری
wada tha kab ka bar-e-KHuda sochne to de

غزل

وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے

صابر

;

وعدہ تھا کب کا بار خدا سوچنے تو دے
معقول کوئی عذر نیا سوچنے تو دے

پرچی وہ جس پہ لکھا ہوا ہے پتہ ترا
رکھ کر کہاں میں بھول گیا سوچنے تو دے

وہ ہجر بھی تو گونگی پہیلی سے کم نہ تھا
اب وصل آ پڑا ہے ذرا سوچنے تو دے

اے چال باز ایسے نہ اترا کے مسکرا
چلنے دے چال مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

ہوں اختیار سے بھی پرے کچھ تصرفات
اندیشۂ‌ حساب ہٹا سوچنے تو دے

جو ہو گیا میں اس پہ ہوں راضی خدا قسم
یہ کیوں ہوا یہ کیسے ہوا سوچنے تو دے