وعدۂ شام فردا پہ اے دل مجھے گر یقیں ہی نہ آئے تو میں کیا کروں
ان کی جھوٹی تسلی کے طوفان میں نبض دل ڈوب جائے تو میں کیا کروں
میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا اب خدا بھول جائے تو میں کیا کروں
سارے جھگڑے اگر میرے جینے کے ہیں تو گلا گھونٹ دو میں بھی بے زار ہوں
موت اب تک تو دامن بچاتی رہی تو بھی دامن بچائے تو میں کیا کروں
تو نہ سمجھے گا ہرگز مرے ناصحا میری مے نوشیاں میری بدمستیاں
مجھ پہ تہمت نہ رکھ میں شرابی نہیں وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں
تم مجھے بے وفائی کے طعنے نہ دو میرے محبوب میں بے وفا تو نہیں
تم بھی مغرور ہو میں بھی خوددار ہوں آنکھ خود ہی بھر آئے تو میں کیا کروں
غزل
وعدۂ شام فردا پہ اے دل مجھے گر یقیں ہی نہ آئے تو میں کیا کروں
انور مرزاپوری