EN हिंदी
عذر ہوا نے کیا رکھا ہے | شیح شیری
uzr hawa ne kya rakkha hai

غزل

عذر ہوا نے کیا رکھا ہے

سعید قیس

;

عذر ہوا نے کیا رکھا ہے
کیسا شور مچا رکھا ہے

اک بے نام تعلق میں بھی
خوف بچھڑنے کا رکھا ہے

دیکھو ہم نے اس لمحے کا
کتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے

اس کی آنکھیں دیکھ رہا ہوں
جس نے جال بچھا رکھا ہے

دھوپ میں اس نے کس کی خاطر
چھت پر چاند اگا رکھا ہے

تم پاگل ہو تم کیا جانو
کس کے دل میں کیا رکھا ہے

ہم نے تیری خاطر ہی تو
آنکھوں میں رستا رکھا ہے

آج غزل کہنی تھی ہم نے
تم کو پاس بٹھا رکھا ہے

قیسؔ اپنی دیوار میں ہم نے
ایک دیا دفنا رکھا ہے