اونچی نیچی پیچ کھاتی دوڑتی کالی سڑک
کتنے سوتے جاگتے فتنوں کی ہے والی سڑک
رات کی گہری خموشی ٹمٹماتی روشنی
ایک میں تنہا مسافر دوسری خالی سڑک
آتے جاتے لاکھ قدموں کے نشاں ابھرے مگر
آج بھی چکنی نظر آتی ہے متوالی سڑک
سب کے سب راہی مسافر منزلوں تک جا چکے
ہے مگر حد نظر اب نقش پامالی سڑک
پی چکی سب آم کی خوشبو کو بو پٹرول کی
شہر سے آئی لیے کیسی یہ خوشحالی سڑک
اس کے سارے پیچ و خم کا رازداں ہوں میں شمیمؔ
داستاں رکھتی ہے تفصیلی یہ اجمالی سڑک

غزل
اونچی نیچی پیچ کھاتی دوڑتی کالی سڑک
سید احمد شمیم