EN हिंदी
اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا | شیح شیری
utri hai aasman se jo kal uTha to la

غزل

اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا

ریاضؔ خیرآبادی

;

اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تو لا
طاق حرم سے شیخ وہ بوتل اٹھا تو لا

لیلیٰ کے دل میں قیس نکل آئے گی جگہ
تو سر پر آج نجد کا جنگل اٹھا تو لا

دھونا ہے داغ جامۂ احرام صبح صبح
حجرے سے شیخ پانی کی چھاگل اٹھا تو لا

مجھ کو بھی انتظار تھا ابر آئے تو پیوں
ساقی اگر یہ سچ ہے کہ بادل اٹھا تو لا

وہ حسن وضع دیکھیں گے کیوں کر جڑے ہیں دل
زر گر نئی بنی ہے جو ہیکل اٹھا تو لا

طاق حرم میں شیخ گلابی ہے پھول سی
اس کام کا ملے گا تجھے پھل اٹھا تو لا

بن جائے دن یہ تیرہ شب ہجر اے ندیم
روشن تھا جس سے طور وہ مشعل اٹھا تو لا

میں کام لوں گا ابر کا اے رند تان کر
تو مجھ فقیر مست کا کمبل اٹھا تو لا

اے شیخ میز سے دم افطار فرش پر
پینے کو پھول کھانے کو کچھ پھل اٹھا تو لا

ناصح کا منہ ہو بند چکھا دوں شراب خلد
ساقی ذرا ریاضؔ کی بوتل اٹھا تو لا