EN हिंदी
اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن | شیح شیری
uThne ko to uTTha hun mahfil se teri lekin

غزل

اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن

ہادی مچھلی شہری

;

اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن
اب دل کو یہ دھڑکا ہے جاؤں تو کدھر جاؤں

مرنا مری قسمت ہے مرنے سے نہیں ڈرتا
پیمانۂ ہستی کو لبریز تو کر جاؤں

تو اور مری ہستی میں اس طرح سما جائے
میں اور تری نظروں سے اس طرح اتر جاؤں

دنیائے محبت میں دشوار جو جینا ہے
مر کر ہی سہی آخر کچھ کام تو کر جاؤں