اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن
اب دل کو یہ دھڑکا ہے جاؤں تو کدھر جاؤں
مرنا مری قسمت ہے مرنے سے نہیں ڈرتا
پیمانۂ ہستی کو لبریز تو کر جاؤں
تو اور مری ہستی میں اس طرح سما جائے
میں اور تری نظروں سے اس طرح اتر جاؤں
دنیائے محبت میں دشوار جو جینا ہے
مر کر ہی سہی آخر کچھ کام تو کر جاؤں
غزل
اٹھنے کو تو اٹھا ہوں محفل سے تری لیکن
ہادی مچھلی شہری