اٹھا شعلہ سا قلب ناتواں سے
ہوا آئی کبھی جو شہر جاں سے
ہماری سمت بھی چشم عنایت
تری خاطر بنے ہیں نیم جاں سے
شکایت اس سے ہے جس پر فدا ہوں
مجھے شکوہ نہیں سارے جہاں سے
نگاہوں سے ادا کرتے ہو مطلب
کہاں کہتے ہو کچھ اپنی زباں سے
تمہیں تھے یا وہ پرچھائیں تمہاری
ابھی بجلی سی جو گزری یہاں سے
کوئی ثانی نہیں اس کا جہاں میں
مجھے نسبت ہے جس سرو رواں سے
مصیبت آشنا یوں ہی نہیں میں
جدا میں بھی ہوئی ہوں کارواں سے
اداسی کس لئے پھیلی ہوئی ہے
اٹھا ہے کون آخر درمیاں سے
ادھر آ آشنائے راز فطرت
صدا آتی ہے دشت بے کراں سے

غزل
اٹھا شعلہ سا قلب ناتواں سے
مینو بخشی