اٹھ رہا ہے دم بہ دم ڈر کا دھواں
کم نہیں ہو پا رہا گھر کا دھواں
کشتیوں کی آگ دفنانے کے بعد
دیکھ لے ساحل سمندر کا دھواں
دونوں جانب ایک جیسی آگ ہے
دونوں جانب ہے برابر کا دھواں
سامنے تو سین ہے بہتر مگر
کیا پتہ پیچھے ہو منظر کا دھواں
کھڑکیاں ساری کی ساری کھول کر
دیکھتا رہتا ہوں باہر کا دھواں
جنگ کے آثار ہیں باقی ابھی
آ رہا ہے پاس لشکر کا دھواں
غزل
اٹھ رہا ہے دم بہ دم ڈر کا دھواں
وصاف باسط