EN हिंदी
اٹھ اور پھر سے روانہ ہو ڈر زیادہ نہیں | شیح شیری
uTh aur phir se rawana ho Dar ziyaada nahin

غزل

اٹھ اور پھر سے روانہ ہو ڈر زیادہ نہیں

ظفر اقبال

;

اٹھ اور پھر سے روانہ ہو ڈر زیادہ نہیں
بہت کٹھن سہی منزل سفر زیادہ نہیں

بیاں میں اپنے صداقت کی ہے کمی ورنہ
یہ راز کیا ہے کہ اس پر اثر زیادہ نہیں

مجھے خراب کیا اس نے ہاں کیا ہوگا
اسی سے پوچھیے مجھ کو خبر زیادہ نہیں

سنا ہے وہ مرے بارے میں سوچتا ہے بہت
خبر تو ہے ہی مگر معتبر زیادہ نہیں

یہ جستجو تو رہے کون ہے وہ کیسا ہے
سراغ کچھ تو ملے گا اگر زیادہ نہیں

ابھی روانہ ہوں یکسوئی سے میں دشت بہ دشت
کہ رہ گزار سفر میں شجر زیادہ نہیں

جبھی تو خار دل دوستاں نہیں ہوں ابھی
کہ عیب مجھ میں بہت ہیں ہنر زیادہ نہیں

دنوں کی بات ہے اب کیمیا گری اپنی
کہ رہ گئی ہے ذرا سی کسر زیادہ نہیں

ظفرؔ ہم آپ کو گمراہ تو نہیں کہتے
یہی کہ ہیں بھی اگر راہ پر زیادہ نہیں