EN हिंदी
اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے | شیح شیری
utarne wali dukhon ki baraat se pahle

غزل

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے

حزیں لدھیانوی

;

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے

یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے

بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے

ہمی نے موت کی تردید میں زباں کھولی
ہمیں نے پیار کیا ہے حیات سے پہلے

وہاں تو بات بھی کرنا جہاد کرنا ہے
جہاں پہ ہونٹ سیے جائیں بات سے پہلے

نئی حیات حزیںؔ فن کو دے گیا غالبؔ
اگرچہ مر گیا تھا وہ وفات سے پہلے