اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر
بچھڑ کے خود سے ملا جب میں خواب کے اندر
رگیں کھنچیں تو بدن خواب کی طرح ٹوٹا
خلا کا زعم بھرا تھا حباب کے اندر
میں ماہ و سال کا کب تک حساب لکھتا رہوں
اسیر پوری صدی ہے عذاب کے اندر
نظر کو فیض ملا تو لبوں پہ مہر لگی
فرات یوں بھی ملی ہے سراب کے اندر
عجب جنون مری انگلیوں میں جاگا ہے
کہ خون ڈھونڈ رہی ہیں گلاب کے اندر

غزل
اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر
شارق عدیل