اسی سے فکر و فن کو ہر گھڑی منسوب رکھتے ہیں
غزل والے غزل کو صورت محبوب رکھتے ہیں
زباں کی چاشنی سے تر بہ تر غزلوں کو پڑھتا ہوں
یہ روحانی غذا ہے ہم جسے مرغوب رکھتے ہیں
غزل تہذیب ہے میری غزل میرا تمدن ہے
بزرگوں نے جو رکھا تھا وہی اسلوب رکھتے ہیں
سناتے ہیں تحت میں جب غزل انداز میں اپنے
پکار اٹھتی ہے دنیا ذوق ہم کیا خوب رکھتے ہیں
غزل بس اس لئے پھیلا رہی ہے اپنے دامن کو
کہ ہم غزلوں کے تیور کو بہت ہی خوب رکھتے ہیں
جنہیں غزلوں سے الجھن ہے میاں فیاضؔ کیا بولیں
نزاکت سے غزل کی ہم انہیں مرعوب رکھتے ہیں
غزل
اسی سے فکر و فن کو ہر گھڑی منسوب رکھتے ہیں
فیاض رشک