اسی کی روشنی رہتی ہے اس قدر مجھ میں
جو اس کے لوٹ کے آنے کی ہے خبر مجھ میں
چھوا تھا جن میں کبھی مجھ کو تیری چاہت نے
وہ لمحے جاگتے رہتے ہیں رات بھر مجھ میں
جو راستے کے اندھیروں سے ڈر کے لوٹ گیا
وہ کاش دیکھتا زندہ تھی اک سحر مجھ میں
مجھے ڈرا نہیں سکتی یہ مشکلوں کی دھوپ
ابھی امید کا باقی ہے اک شجر مجھ میں
ترے وجود کو چھو لے تو پھر مکمل ہو
بھٹک رہی ہے خوشی کب سے در بدر مجھ میں
غزل
اسی کی روشنی رہتی ہے اس قدر مجھ میں
نینا سحر