اسی کی دھن میں کہیں نقش پا گیا ہے مرا
جو آ کے خواب میں در کھٹکھٹا گیا ہے مرا
گزر گیا ہے جو پہلو بچا کے مجھ سے تو کیا
نظر جھکا کے وہ گھر دیکھتا گیا ہے مرا
ہوں مضطرب تری گم گشتہ آرزو کے لیے
دکان دل سے در بے بہا گیا ہے مرا
اسیر گنبد بے در پڑا ہوں مدت سے
مرے ہی دل پہ وہ پہرہ بٹھا گیا ہے مرا
قدم قدم پہ دیار وفا کے رستے میں
مری زباں سے فسانہ سنا گیا ہے مرا
محیط ہے مرے دیوار و در پہ تنہائی
نہ جانے کون اسے گھر بتا گیا ہے مرا
غزل
اسی کی دھن میں کہیں نقش پا گیا ہے مرا
زاہد فارانی