اسی کے کہنے پہ منحصر ہے
یہ سارا اس کی سر راہ پر ہے
کمال داد اس کو اس قدر ہے
یہ زور اس کی ہی واہ پر ہے
کہاں کہاں کس کو کیا ملے گا
یہ فیصلہ سربراہ پر ہے
کسی کی آنکھوں کے اشک پر ہے
کسی کے ہونٹوں کی آہ پر ہے
بدل تو لوں راستہ مگر پھر
نظر ابھی زاد راہ پر ہے
چلے گا اب کتنی دور تک تو
یہ اپنے زور نباہ پر ہے
ہر ایک محور ہر ایک مرکز
ابھی تک اس کج کلاہ پر ہے
وہ بخش دے چاہے مار ڈالے
یہ فیصلہ آج شاہ پر ہے
کہاں سے پلٹے کہاں پہ ٹھہرے
یہ منحصر اب نگاہ پر ہے
لو آج ڈوبیں کہ پار اتریں
یہ سب تو ممتازؔ چاہ پر ہے
غزل
اسی کے کہنے پہ منحصر ہے
ممتاز ملک