EN हिंदी
اسی کے دم پہ تو یہ دوستی بچی ہوئی تھی | شیح شیری
usi ke dam pe to ye dosti bachi hui thi

غزل

اسی کے دم پہ تو یہ دوستی بچی ہوئی تھی

لیاقت جعفری

;

اسی کے دم پہ تو یہ دوستی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں جو ہم سری بچی ہوئی تھی

ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی

اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی
مرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی

اسی کے دم پہ منایا تھا اس نے جشن مرا
کہ دشمنی میں بھی جو دوستی بچی ہوئی تھی

کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی

اگرچہ ختم تھے رشتے پڑوسیوں والے
ہمارے بیچ میں ہمسائیگی بچی ہی تھی

بدل چکا تھا وہ اپنا مزاج میرے لئے
مگر دکھاوے کو اک بے رخی بچی ہوئی تھی

اسی کے نور سے پر نور تھا یہ سارا جہاں
ہماری آنکھ میں جو روشنی بچی ہوئی تھی

اب اس مقام پہ پہونچا دیا تھا ہم نے عشق
جنون ختم تھا دیوانگی بچی ہوئی تھی

اسی نے جوڑ کے رکھا ہوا تھا رشتے کو
ہمارے بیچ میں جو برہمی بچی ہوئی تھی

اس ایک بات کی شرمندگی نے مار دیا
مرے وجود تری تشنگی بچی ہوئی تھی

عبور کر لیا صحرا تو پھر سے لوٹ آئے
جنون باقی تھا آشفتگی بچی ہوئی تھی

میں گاہے گاہے اسے یاد کر ہی لیتا تھا
اسی بہانے مری زندگی بچی ہوئی تھی

اسی کے دم پہ پڑھے بھی گئے سنے بھی گئے
ہمارے لہجے میں جو چاشنی بچی ہوئی تھی

زمانے تیری ہنر کوش رزم کے ہاتھوں
میں لٹ چکا تھا مگر شاعری بچی ہوئی تھی

وہ کون راز تھا جس کو بیان کر نہ سکے
وہ کون بات تھی جو جعفریؔ بچی ہوئی تھی