اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل
جو ہے تیر نگہ سے چھانتا دل
بہت کہتے ہیں مت مل اس سے لیکن
نہیں کہنا ہمارا مانتا دل
کہا اس نے یہ ہم سے کس صنم کو
تمہارا ان دنوں ہے مانتا دل
چھپاؤگے تو چھپنے کا نہیں یاں
ہمارا ہے نشاں پہچانتا دل
کہا ہم نے نظیرؔ اس سے کہ جس نے
یہ پوچھا ہے اسی کا جانتا دل
غزل
اسی کا دیکھنا ہے ٹھانتا دل
نظیر اکبرآبادی