اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زاد رہ گزر بھی تھا
یہ جسم و جان تری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی تھا
اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا
میں سرخ رو تھا خدائی کے روبرو یوسفؔ
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا

غزل
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یوسف حسن