EN हिंदी
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا | شیح شیری
usi harif ki ghaarat-gari ka Dar bhi tha

غزل

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا

یوسف حسن

;

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زاد رہ گزر بھی تھا

یہ جسم و جان تری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا

اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا

مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی تھا

اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا

میں سرخ رو تھا خدائی کے روبرو یوسفؔ
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا