اسی عمل کی ذرا سی شراب دیتا چل
شرر کے ہاتھ میں کوئی گلاب دیتا چل
وہ انتشار غم زیست میں جلا دے گا
مگر اسی کو خوشی کی کتاب دیتا چل
ہر اک سوال کا ملتا رہا جواب تجھے
کسی سوال کا تو بھی جواب دیتا چل
یہاں تو تیری حکومت کا کارخانہ تھا
کبھی ہمارے غموں کا حساب دیتا چل
زمیں سکون کی حالت میں آئے گی لیکن
اسے ندیمؔ کی شعری کتاب دیتا چل
غزل
اسی عمل کی ذرا سی شراب دیتا چل
انور ندیم