اسے یقیں مری باتوں پہ اب نہ آئے گا
مرا لہو ہی میرے بعد حق جتائے گا
وہ بات کرنے سے پہلے ہی زخم دیتا ہے
ہر ایک زخم اسے آئنہ دکھائے گا
یہ کیسی رسم جسے چاہ کے نبھا نہ سکے
زمانہ ہے یہ کسی دن بدل ہی جائے گا
وہ جانتا ہی کہاں ہے میرے قبیلے کو
میری جڑوں کو کریدے گا جان جائے گا
پل صراط سے ہر روز ہے سفر میرا
یہ دیکھنا ہے کہاں تک وہ آزمائے گا
غزل
اسے یقیں مری باتوں پہ اب نہ آئے گا
صاحبہ شہریار