EN हिंदी
اسے یقیں مری باتوں پہ اب نہ آئے گا | شیح شیری
use yaqin meri baaton pe ab na aaega

غزل

اسے یقیں مری باتوں پہ اب نہ آئے گا

صاحبہ شہریار

;

اسے یقیں مری باتوں پہ اب نہ آئے گا
مرا لہو ہی میرے بعد حق جتائے گا

وہ بات کرنے سے پہلے ہی زخم دیتا ہے
ہر ایک زخم اسے آئنہ دکھائے گا

یہ کیسی رسم جسے چاہ کے نبھا نہ سکے
زمانہ ہے یہ کسی دن بدل ہی جائے گا

وہ جانتا ہی کہاں ہے میرے قبیلے کو
میری جڑوں کو کریدے گا جان جائے گا

پل صراط سے ہر روز ہے سفر میرا
یہ دیکھنا ہے کہاں تک وہ آزمائے گا