اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا
مرے نجم آب مجھے بتا وہ کہاں گیا
جو لکیر پانی پہ نقش تھی وہ کہاں گئی
جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا
کہاں ٹوٹے میری طناب جسم کے حوصلے
جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا
جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی کدھر گئی
وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا
گئے کس جہت کو تکون خواب کے زاویے
جو رکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا
ابھی عکس اس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتاً
مرے آئینے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا
کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں
جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا
غزل
اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا
رفیق سندیلوی