اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے
تو پلکوں میں آئینے سجنے لگے
خوشا اے سر شام بھیگے شجر
ترے زخم کچھ اور گہرے ہوئے
مسافر پہ خود سے بچھڑنے کی رت
وہ جب گھر کو لوٹے بہت دل دکھے
کہیں دور ساحل پہ اترے دھنک
کہیں ناؤ پر امن بادل چلے
بہت تیرگی میرے محلوں میں تھی
دریچے جو کھولے تو منظر اگے
عجب آنچ ہے دل کے دامن تلک
کوئی آگ جیسے ہوا میں بہے
بہت دستکیں تھیں وہ ٹھہرا بھی تھا
ہوا تیز ہو جب تو کیا در کھلے
وہ چاہا گیا تھا جنہیں ٹوٹ کر
پرائے ملے تھے پرائے گئے
ترا نطق ہی مجھ کو زنجیر تھا
ابھی تک نہ مجھ سے یہ حلقے کھلے
غزل
اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے
شاہدہ تبسم