اسے دیکھا تو ہر بے چہرگی کاسہ اٹھا لائی
تمنا اپنے خالی ہاتھ میں دنیا اٹھا لائی
مجھے تو اپنی ساری کھیتیاں سیراب کرنی تھیں
مگر وہ موج اپنے ساتھ اک صحرا اٹھا لائی
رفاقت کو مری تنہائی بھولی بسری یادوں سے
کوئی سایہ اٹھا لائی کوئی چہرہ اٹھا لائی
انہیں خوشبو کی چاہت میں بہت نرمی سے چھونا تھا
ہوائے شام تو پھولوں کی کوملتا اٹھا لائی
وہاں تو آب شیریں کی کئی لبریز جھیلیں تھیں
تو پھر کیوں تشنگی میری مجھے پیاسا اٹھا لائی
کبھی ان وادیوں میں دور تک رستے فروزاں تھے
شہابؔ اک سر پھری موج ہوا کہرا اٹھا لائی

غزل
اسے دیکھا تو ہر بے چہرگی کاسہ اٹھا لائی
مصطفی شہاب