اسے بھلا نہ سکی نقش اتنے گہرے تھے
خیال و خواب پر میرے ہزار پہرے تھے
وہ خوش گماں تھے تو جو خواب تھے سنہرے تھے
وہ بد گماں تھے اندھیرے تھے اور گہرے تھے
جو آج ہوتی کوئی بات بات بن جاتی
اسے سنانے کے امکان بھی سنہرے تھے
سماعتوں نے کیا رقص مست ہو ہو کر
صدا میں اس کی حسیں بین جیسے لہرے تھے
ہمارے درد کی یہ داستان سنتا کون
یہاں تو جو بھی تھے منصف وہ سارے بہرے تھے
چلے گئے وہ شرر بو کے اس قبیلے میں
تو قتل ہونے کو شاہینؔ ہم بھی ٹھہرے تھے

غزل
اسے بھلا نہ سکی نقش اتنے گہرے تھے
سلمیٰ شاہین