اس ستم گر کی مہربانی سے
دل الجھتا ہے زندگانی سے
خاک سے کتنی صورتیں ابھریں
دھل گئے نقش کتنے پانی سے
ہم سے پوچھو تو ظلم بہتر ہے
ان حسینوں کی مہربانی سے
اور بھی کیا قیامت آئے گی
پوچھنا ہے تری جوانی سے
دل سلگتا ہے اشک بہتے ہیں
آگ بجھتی نہیں ہے پانی سے
حسرت عمر جاوداں لے کر
جا رہے ہیں سرائے فانی سے
ہائے کیا دور زندگی گزرا
واقعے ہو گئے کہانی سے
کتنی خوش فہمیوں کے بت توڑے
تو نے گل زار خوش بیانی سے
غزل
اس ستم گر کی مہربانی سے
گلزار دہلوی