EN हिंदी
اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا | شیح شیری
us sham ko jab ruTh ke mein ghar se chala tha

غزل

اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا

ضمیر کاظمی

;

اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا
اک سایہ بھی بچھڑے ہوئے منظر سے چلا تھا

اب آسماں ہاتھوں میں ہے پیروی میں زمیں ہے
میں بے سر و سامان ترے در سے چلا تھا

بے بس اسے کر دے گی ہواؤں کی سیاست
بادل کا وہ ٹکڑا جو سمندر سے چلا تھا

دینے لگا آکاش کے دروازوں پہ دستک
انسان کا وہ دور جو پتھر سے چلا تھا

اس شخص کی شہرت کو نہ پیمانہ بناؤ
کھوٹا تھا وہ سکہ جو مقدر سے چلا تھا