اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا
اک سایہ بھی بچھڑے ہوئے منظر سے چلا تھا
اب آسماں ہاتھوں میں ہے پیروی میں زمیں ہے
میں بے سر و سامان ترے در سے چلا تھا
بے بس اسے کر دے گی ہواؤں کی سیاست
بادل کا وہ ٹکڑا جو سمندر سے چلا تھا
دینے لگا آکاش کے دروازوں پہ دستک
انسان کا وہ دور جو پتھر سے چلا تھا
اس شخص کی شہرت کو نہ پیمانہ بناؤ
کھوٹا تھا وہ سکہ جو مقدر سے چلا تھا
غزل
اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا
ضمیر کاظمی