اس پر تو کبھی دل کا کوئی زور نہیں تھا
ہم سا بھی زمانے میں کوئی اور نہیں تھا
جس وقت وہ رخصت ہوا بارات کی مانند
اک ٹیس سی اٹھی تھی کوئی شور نہیں تھا
ویران سی اس دنیا میں ہم کس سے بہلتے
جنگل تھا اداسی تھی کوئی مور نہیں تھا
دل ٹوٹ گیا تھا تو جڑاتے کہیں جا کر
اس کام کا دنیا میں کوئی طور نہیں تھا
خنجر کی چبھن سے ہی میں پہچان گیا تھا
وہ تو تھا مرے دوست کوئی اور نہیں تھا
غزل
اس پر تو کبھی دل کا کوئی زور نہیں تھا
ناصر راؤ